Main Kya Karun Mujhay Izhar Tak Nahin Ata
مَیں کیا کروں' مجھے اظہار تک نہیں آتا
ہے اُس سے پیار، مگر پیار تک نہیں آتا
ہے اُس سے پیار، مگر پیار تک نہیں آتا
سخن تو ذات کی بربادیءِ ہمیشہ ہے
یہ سلسلہ کبھی گھر بار تک نہیں آتا
یہ سلسلہ کبھی گھر بار تک نہیں آتا
چُرا کے لے گئے گفتار کو مری ' وہ یار
جنہیں طریقہءِ گفتار تک نہیں آتا
جنہیں طریقہءِ گفتار تک نہیں آتا
فغاں ' اُو میری زلیخا! کہ ہوں میں وہ یوسُف
جو ایک دَم کو بھی بازار تک نہیں آتا
جو ایک دَم کو بھی بازار تک نہیں آتا
عجب شکَوہ ہے میرا 'عجب مری نخوت
ہوں میں وہ شاہ جو ' دربار تک نہیں آتا
ہوں میں وہ شاہ جو ' دربار تک نہیں آتا
یہ حشر ِ ناز کہ بس' اور یہ تیز تیز نفَس
تمہیں سلیقہءِ انکار تک نہیں آتا
تمہیں سلیقہءِ انکار تک نہیں آتا
Comments