Dil e Maghror Ka Qisa - دِلِ مغرور کا قصّہ

بہت مغرور پھرتا تھا ، اَنا کے ساتھ رہتا تھا
محبت کو فقط اِک سرسری سا ساتھ کہتا تھا
مگن تھا ذات میں اپنی ، کسی کی کچھ خبر نہ تھی
فقط اپنے ہی مطلب کے لیے یہ سب سے ملتا تھا
اسےمعلوم تک نہ تھا، کہ اِس کی دھڑکنیں دھڑکن سے زیادہ شور کرتی ہیں
اِسے باور کراتی ہیں کہ ، "اے میرے دِلِ ناداں!"
"محبت فرض ہو نہ ہو، محبت قرض ہے تم پر،
کسی انجان ہستی کا، کسی معصوم سے دِل کا،
جسے تم نے چُکانا ہے، ہمارا شور رُکنے تک،
ہمارے چاروں جانب خامشی کے پھیل جانے تک،
اِسی تھوڑے سے عرصے میں، تمہیں قرضہ چکانا ہے!"
بالآخر، دھڑکنوں نے ، اپنے دِل کو رام کر ڈالا
کسی انجان لمحے میں ، کسی انجان ہستی پر
دِلِ مغرور کی دھڑکن نے اپنا کام کر ڈالا
بہت ہی خامشی سے دِل کسی کے نام کر ڈالا
یہ دِل مغرور ہے اب بھی، مگر اپنی محبت پر
یہ مہرِیار کی سوچوں پہ ہر پل شاد رہتا ہے
میں اِس سے جب بھی بولوں تو یہ مجھ سے یہ ہی کہتا ہے!
"محبت قرض تھی مجھ پہ،کسی پہ وار بیٹھا ہوں،
محبت کے لیے یارم!میں خود کو ہار بیٹھا ہوں،
میں خود کو ہار بیٹھا ہوں
...
علیؔ سرمد
Image may contain: one or more people

Comments

Popular Posts