کاش کہ خوشیاں بکتی ہوتیں KASH KAY KHUSHIAN BIKTI
کاش کہ خوشیاں بکتی ہوتیں
اور دکھوں کا ٹھیلا ہوتا
ایک ٹکے میں آنسو آتے
اور محبت چار ٹکے میں
پانچ ٹکے میں ساری دنیا
مفت ہنسی اور مفت ستارے
چاند بھی ٹکڑے ٹکڑے بکتا
خواہش نام چیز نا ہوتی
ہاتھ بڑھا کے سب ملتا
ہم چاہتے تو مر جاتے ناں
جی چاہتا تو جیتے رہتے
اونچے نیچے شہر نا ہوتے
پانی پر بھی گھر ہوتے
کاش کے اپنے پر ہوتے
اور وہ گہرا نیلا امبر
سات سمندر پار کے ساحل
جنگل، ندیاں، گرتا پانی
سب کچھ اپنا دھن ہوتا
کسی بھی چیز کی حد نا ہوتی
وہ کرتے جو من ہوتا
چاند کی کرنیں پہن کے جگتے
اور خاموشی اوڑھ کے سوتے
راتیں دن بھر رکتی ہوتیں
کاش کے خوشیاں بکتی ہوتیں
اور دکھوں کا ٹھیلا ہوتا
ایک ٹکے میں آنسو آتے
اور محبت چار ٹکے میں
پانچ ٹکے میں ساری دنیا
مفت ہنسی اور مفت ستارے
چاند بھی ٹکڑے ٹکڑے بکتا
خواہش نام چیز نا ہوتی
ہاتھ بڑھا کے سب ملتا
ہم چاہتے تو مر جاتے ناں
جی چاہتا تو جیتے رہتے
اونچے نیچے شہر نا ہوتے
پانی پر بھی گھر ہوتے
کاش کے اپنے پر ہوتے
اور وہ گہرا نیلا امبر
سات سمندر پار کے ساحل
جنگل، ندیاں، گرتا پانی
سب کچھ اپنا دھن ہوتا
کسی بھی چیز کی حد نا ہوتی
وہ کرتے جو من ہوتا
چاند کی کرنیں پہن کے جگتے
اور خاموشی اوڑھ کے سوتے
راتیں دن بھر رکتی ہوتیں
کاش کے خوشیاں بکتی ہوتیں
Comments