Faslay asay b hun gay ya kabhi socha na tha

فاصلے ایسے بھی ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

خود چڑھارکھے تھے تن پر اجنبیت کے غلاف
ورنہ کب ایک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

وہ کے خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اس میں تیرا چہرا نہ تھا

آج اس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیئے
آج میں رویا تو میرا ساتھ وہ رویا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا جو ہلتا نہ تھا

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کی سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

عدیم ہاشمی

Comments

Popular Posts