Khizan kay akhkri din thay bhar aye na thi lakin
خزاں کے آخری دِن تھے
بہار آئی نہ تھی لیکن
ھوا کے لَمس میں اِک بے صدا سی نغمگی محسوُس ھوتی تھی
درختوں کے تحّیر میں
کِسی بے آسرا اُمید کی لَو تھرتھراتی تھی
گُزرگاھوں میں اُڑتے خُشک پتّے
اجنبی لوگوں کے قدموں سے لِپٹتے اور اُلجھتے تھے
تو اِک بُھولی ھُوئی تصویر جیسے کوند جاتی تھی،
ھر اِک منظر کے چہرے پر
لرزتی بے کَلی کی ریشمیں چِلمن کشیدہ تھی
نظر رستہ نہ پاتی تھی
کچھ ایسا ھی سماں تھا جب
وہ میرے بَخت کے صحرا میں ساون کی طرح اُتری،
مِرے سانسوں میں مہکی تھی
نگاھوں کے ستارے، آرزوُ کے استعارے تھے،
تمنّاؤں کے سیلِ شوق میں بہنے لگی تھی وہ
مِرے سینے پہ سر رکھ کر اچانک مُسکرائی
اور کچھ کہنے لگی تھی وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کیا تھا وہ جُملہ!
وہ اُس کا اَدھ کہا جُملہ!
جو غُنچے کی طرح اُن کانپتے ھونٹوں پہ پُھوٹا تھا
اُسی لمحے کوئی کوئل بڑے ھی درد سے کوُکی تھی
وہ جیسے، اچانک نیند سے جاگی تھی
اور اُس نے بڑے دُکھ سے فلک کی سمت دیکھا تھا
وہ بولی تھی ۔۔۔۔۔۔
"ستارہ شام کا روشن ھواُ ھے، اب میں چلتی ھوُں!"
خزاں کے آخری دن ھیں
ھوا کے لَمس میں اِک بے صدا سی نغمگی محسوُس ھوتی ھے
کوئی مانوُس سی خوشبوُ مِرے کانوں میں کہتی ھے،
"پھر اُس کے حُسن کا محرم تِرا دِل ھونے والا ھے
وہ اُس کا اَدھ کہا جُملہ ۔۔۔۔
مُکمل ھونے والا ھے!
امجد اِسلام امجد
Comments