Meray BAs main Ho to kabhi kahin
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے
نغمہء زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اُٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک
جہاں چاند ماند نہ ہو کبھی
جہاں چاندنی کی رِدا بنے
میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے
جہاں بے نشاں ہو قیاس تک
جہاں آدمیت کے نطق و لب پہ
نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سرسرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی
ہراس تک
جہاں وہم ہو نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں جگنو کو ہوا دکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رُت کو حسد نہ ہو
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو
جہاں خواب آنکھوں میں جگمگائیں تو
جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں
تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو
کہ ، بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دوا
تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی
کوئی شاخ کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو
بارشوں کے عذاب کا کوئی ڈر نہ ہو
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ
غمِ جاں کا کوئی اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں
غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمے کائنات کی تلخیاں
کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میری سانس کی تازگی
تیری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اِ ک صدف
شب و روز کے کسی پل میں ہو
جہاں نوحہء غمِ زندگی
میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوھِ خاک پہ عمر بھر
کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ ، کوئی نشاں نہ ہو
کوئی شہر ایسا کبھی کہیں
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رُت میں بھی گُل کھلیں
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں
کبھی گیت امن کے گاؤں میں
جہاں زندگی کا رِجز پڑھوں
جہاں بے خلل گنگناؤں میں
جہاں موج موج کی اوٹ میں
تو کرن بنے ، مسکراؤں میں
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے
نغمہء زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اُٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک
جہاں چاند ماند نہ ہو کبھی
جہاں چاندنی کی رِدا بنے
میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے
جہاں بے نشاں ہو قیاس تک
جہاں آدمیت کے نطق و لب پہ
نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سرسرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی
ہراس تک
جہاں وہم ہو نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ
جہاں جگنو کو ہوا دکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رُت کو حسد نہ ہو
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو
جہاں خواب آنکھوں میں جگمگائیں تو
جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں
تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو
کہ ، بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دوا
تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی
کوئی شاخ کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو
بارشوں کے عذاب کا کوئی ڈر نہ ہو
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں برف برف محبتوں پہ
غمِ جاں کا کوئی اثر نہ ہو
راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں
غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمے کائنات کی تلخیاں
کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میری سانس کی تازگی
تیری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اِ ک صدف
شب و روز کے کسی پل میں ہو
جہاں نوحہء غمِ زندگی
میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوھِ خاک پہ عمر بھر
کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ ، کوئی نشاں نہ ہو
کوئی شہر ایسا کبھی کہیں
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رُت میں بھی گُل کھلیں
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں
کبھی گیت امن کے گاؤں میں
جہاں زندگی کا رِجز پڑھوں
جہاں بے خلل گنگناؤں میں
جہاں موج موج کی اوٹ میں
تو کرن بنے ، مسکراؤں میں
میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
(محسن نقوی )
Comments