Posted by
Attique
Hum Khwabon kay baypoari thay
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پے ہے ساہوکار کھڑا
یہاں بوند نہیں ہے دیوے میں
وہ بھاج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سر سنگیت میں کھوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول بہت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں
کچھ گیت شکستہ جانوں کے
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
پھر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رت میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
سر پر چھایا چھتری ہو گی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاتستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ دولتے ڈوبتے بجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور تن پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے
اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ
ہر اور ٹھگوں کا ٹولہ ہے
اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
اب پاس بچا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھڑی باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا
احمد فراز،
ہم خوابوں کے بیوپاری تھے
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پے ہے ساہوکار کھڑا
یہاں بوند نہیں ہے دیوے میں
وہ بھاج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سر سنگیت میں کھوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول بہت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں
کچھ گیت شکستہ جانوں کے
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
پھر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رت میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
سر پر چھایا چھتری ہو گی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاتستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ دولتے ڈوبتے بجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور تن پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے
اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ
ہر اور ٹھگوں کا ٹولہ ہے
اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
اب پاس بچا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھڑی باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا
Comments