Iqrar kar gaya kabhi inkar kr gaya


اقرار کر گیا ۔۔ کبھی انکار کر گیا
ہر بار اک عذاب سے دوچار کر گیا
میں بھی نہیں ہوں تُو بھی نہیں ھے تو پھر بتا
وہ کون ھے جو صحن میں دیوار کر گا ؟
پلکوں پہ رکھ کے ہونٹ سبھی خواب چُن لیے
سوتے میں پھر کوئی مجھے بیدار کر گیا
رستہ بدل بدل کے بھی دیکھا مگر وہ شخص
دل میں اُتر کے ساری حدیں پار کر گیا
ضدٌی تھا وہ،تو میں تھی بلا کی انا پرست
آیا تھا جیتنے وہ مگر ۔۔ ہار کر گیا
زخموں کی کہکشائیں سجا کر وہ ہاتھ پر
ہر راہ میرے واسطے ہموار کر گیا
آنکھوں کی پُتلیوں میں سجا کر وہ خوابِ وصل
پھر ہجر کو نوشتہء دیوار کر گیا !!
(فاخرہ بتول)



Comments

Popular Posts