Ajab door tha bachpan ka
عجب تھا بچپنے کا دور ،
جب ہم کو رُلاتے تھے
وہ سستے سے کھلونے
جو اچانک ٹوٹ جاتے تھے
کبھی چِھلتے جو گٹھنے،
کہنیوں پر چوٹ لگ جاتی
طبیعت ماں کے بوسے
اور ٹافی سے بہل جاتی
پلٹ کر جھانکتے ہیں
اب جو ماضی میں تو لگتا ہے
کہ وہ ٹوٹے کھلونے
اور وہ اکثر چِھلے گٹھنے
بہت بہتر تھے ٹوٹے دل سے
اور سینے کے داغوں سے
دلِ زخمی ہے تنہا ،
پر کسی جانب سے بھی
کوئی حرفِ تسلی ہے ،
نہ معافی نہ تلافی ہے
توجہ کا کوئی بوسہ،
نہ دل جوئی کی ٹافی ہے
جب ہم کو رُلاتے تھے
وہ سستے سے کھلونے
جو اچانک ٹوٹ جاتے تھے
کبھی چِھلتے جو گٹھنے،
کہنیوں پر چوٹ لگ جاتی
طبیعت ماں کے بوسے
اور ٹافی سے بہل جاتی
پلٹ کر جھانکتے ہیں
اب جو ماضی میں تو لگتا ہے
کہ وہ ٹوٹے کھلونے
اور وہ اکثر چِھلے گٹھنے
بہت بہتر تھے ٹوٹے دل سے
اور سینے کے داغوں سے
دلِ زخمی ہے تنہا ،
پر کسی جانب سے بھی
کوئی حرفِ تسلی ہے ،
نہ معافی نہ تلافی ہے
توجہ کا کوئی بوسہ،
نہ دل جوئی کی ٹافی ہے
Comments