آخری ملاقات- Akhri Mualkat
آخری ملاقات
مت روکو اِنہیں! پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اِتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ چاند چمکتے گالوں کے
کچھ بھونرے کالے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی
کچھ نرم لکیریں کاجل کی
اک چھلّا پھیکی رنگت کا
اک لاکٹ دل کی صورت کا
رومال کئی ریشم سے کڑھے
وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے
اُجڑی یوئی مانگیں شاموں کی
آواز شکستہ جاموں کی
کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے
کچھ گھنگھرو ٹوٹی پائل کے
کچھ بکھرے دھاگے چلمن کے
کچھ پُرزے اپنے دامن کے
کچھ تار سے یہ تھرّائے یوئے
کچھ گیت کبھی کے گائے ہوئے
کچھ شعر پرانی غزلوں کے
عنوان ادھوری نظموں کے
ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی
اک خشک قلم، اک بند گھڑی
کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے
کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے
کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے
کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے
کچھ اُجڑی اُجڑی دنیائیں
کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں
کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں
یہ غیر نہیں، سب اپنے ہیں
مت روکو اِنہیں! پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اِتنے دھندلے سائے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اِتنے دھندلے سائے ہیں
کچھ چاند چمکتے گالوں کے
کچھ بھونرے کالے بالوں کے
کچھ نازک شکنیں آنچل کی
کچھ نرم لکیریں کاجل کی
اک چھلّا پھیکی رنگت کا
اک لاکٹ دل کی صورت کا
رومال کئی ریشم سے کڑھے
وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے
اُجڑی یوئی مانگیں شاموں کی
آواز شکستہ جاموں کی
کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے
کچھ گھنگھرو ٹوٹی پائل کے
کچھ بکھرے دھاگے چلمن کے
کچھ پُرزے اپنے دامن کے
کچھ تار سے یہ تھرّائے یوئے
کچھ گیت کبھی کے گائے ہوئے
کچھ شعر پرانی غزلوں کے
عنوان ادھوری نظموں کے
ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی
اک خشک قلم، اک بند گھڑی
کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے
کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے
کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے
کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے
کچھ اُجڑی اُجڑی دنیائیں
کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں
کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں
یہ غیر نہیں، سب اپنے ہیں
مت روکو اِنہیں! پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اِتنے دھندلے سائے ہیں
(جاں نثار اختر)
Comments