Asi he sard shaam thi wo be

ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی
جب وہ مہندی رچائے ھاتھوں میں
آھٹ کے خوف سے لرزاں
سرخ آنچل میں منہ چھپائے ھوئے
اپنے خط مجھ سے لینے آئی تھی
اُس کی سہمی ھوئی سی نگاھوں میں
کتنی خاموش التجائیں تھیں
اُس کے چہرے کی زرد رنگت میں
کتنی مجبوریوں کے سائے تھے
میرے ھاتھوں سے خط پکڑتے ہی
جانے کیا سوچ کر اچانک وہ
میرا شانہ پکڑ کے روئی تھی
اُس کے یاقوت رنگ ھونٹوں کے
کپکپاتے ہوئے کناروں پر
سینکڑوں ان کہے فسانے تھے
سرد شاموں میں دیر تک اکثر
جب یہ منظر دیکھائی دیتا ھے
اک لمحہ حنائی ھاتھوں سے
مجھ کو اپنی طرف بُلاتا ھے
ھم نشیں روٹھ کر نہ جا مجھ سے
ایسی ہی سرد شام تھی وہ بھی


Comments

Popular Posts