Lamhat wasl kay hijabon mai kat gaye

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے
خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے
ملنا دوبارہ ملنے کو وعدہ جُدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے
روئی ہوں آج کھُل کے، بڑی مُدتوں کے بعد
بادل جو آسمان پہ چھائے تھے، چھٹ گئے
کِس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل
آئی ہوا تو کِتنے ورق ہی اُلٹ گئے
شہرِ وفا میں دُھوپ کا ساتھی کوئی نہیں
سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہَوا کے، کیسے گلے سے لپٹ گئے
دستِ ہَوا نے جیسے درانتی سنبھال لی
اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے
 
 

 

Comments

Popular Posts